ہم تھوڑے تھوڑے جھوٹے ہی نہیں ہیں کافی نادان بھی ہیں۔ ہم اپنی محبت کا ذکر بھی کرتے ہیں تو صرف انسانوں سے، اداکاروں، کھلاڑیوں اور جھوٹے سیاسی رہنماؤں سے، اگر نہیں کرتے تو ہم اپنے ربّ کی محبت کا ذکر نہیں کرتے۔ جس کونہ صرف محبت پسند ہے بلکہ محبت سے کیا ہوا اپنا ذکراور زیادہ پسند ہے۔ وہ تو کہتا ہے، ”آپس میں بیٹھو تو میرا ذکر کرو ایسے جیسے خوشی اور فخر سے اپنے والدین کا اور اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہو،بلکہ میرا ذکر اپنے آباؤ اجداد سے بھی زیادہ کرو۔“ جب ہم آپ اظہار نہیں کرتے تو بچے کیوں اس سے محبت کریں گے۔ اس سے دلی تعلق کا اظہار کریں گے۔ کہنے والے استادکے اظہار سے یا تو قاصر رہے گا یا کمزور سا اظہار کرے گا کیوں کہ کہے لفظوں کے پیچھے اگر ایمان اور یقین کی قوت نہیں ہے تو وہ رب سے اپنی محبت کے اظہارسے یا تو بتانا پڑے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے ربّ سے محبت کرو۔ خود ہمیں بھی تو رب نے کہا کہ محمدﷺ سے محبت کرو تو کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا حجر اسود سے، کہ اے حجر اسود! یاد رکھ کہ تو پتھر تھا ہمیں محمد ﷺ نے بتایا ہے کہ تو جنت سے آیا ہے، کیونکہ تم سے وہ پیار کرتے ہیں، وہ محبت کرتے ہیں تو ہم اسی لیے پیار سے تمھیں چومتے ہیں ورنہ تیری وقعت تو پتھر جیسی ہی ہے۔مالک و خالق نے کہا میرے محبوب نبی سے محبت کرو۔ اس کی پیروی کرو۔ محبوب ﷺ نے کہا مالک سے محبت کرو۔ اس کی مانو، اس کی رضا حاصل کرو۔
جناب اختر عباس کی کتاب “وننگ لائن پر کون پہنچاتا ہے” سے ایک تراشا
