مجھے یاد ہے کالج میں لڑکے مجھے لمبو کہا کرتے تھے۔ میں قد کاٹھ کے اعتبار سے ہمیشہ ہی ممتاز رہاہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرا جسم بھر گیاہے۔ گھر میں رزق اورباہر والد صاحب کے تعلقات کی فراوانی تھی۔ وہ بی ڈی ممبر تھے۔ پہلے زمینداری اور ڈیرے داری سے فرصت نہ تھی۔ ممبری نے انھیں ایک اور نئی دنیا کا باسی بنادیا تھا۔
ڈیرے پر لوگوں کاخوب آنا جانالگا رہتا۔ رات گئے تک سیاست میں جوڑ توڑ، لوگوں کے جائزناجائز کام،بس اس طرح کے روز و شب میں سکول کا سفر طے کیا تھا۔ میرے دوستوں میں اکثر ہم عمر تھے۔ اور مجھے ان پر معاشی برتری حاصل تھی۔ اس طرح کی معاشرت میں دبے ہوئے لڑکوں کو دوست بنانے میں بھی بڑا سکون ہوتا ہے۔ ان سے بات منوانا اورا پنی فوقیت جتلانا آسان ہوتا ہے۔ جہاں باقی لڑکوں سے مقدموں میں باتیں اپنے وکیلوں کی بڑائی،جھوٹے سچے کیسوں میں ان کے کمالات،رشوتوں کی چھوٹی بڑی رقموں، بڑے افسروں سے تعلقات اور دوستانے کا ذکر ہوتا۔ وہاں بابر سے بات چیت کے موضوع ہی اور ہوتے۔ بس اس میں کچھ ایسا تھا جوپکڑائی نہ دیتاتھا،دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کی باتوں اور ملاقاتوں میں بڑی شادابی تھی۔ اس کو پڑھنا اور اخذکرنا مجھے کبھی نہ آیا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کے پاس بیٹھنا اور اس کی باتیں سننا اچھا لگتا جیسے جیسے مجھے یقین ہوتاگیا کہ اسے مجھ سے کوئی مطلب او رکام نہیں، میں نے دل سے اس کی عزت کرنا شروع کر دی۔
جناب اختر عباس کے افسانوی مجموعے “سُلگن” سے ایک تراشا
