گھروں میں کبھی نوٹ کریں تو عجیب سی صورت سامنے آتی ہے کہیں ساس بہو کو مارتی ہے اور کہیں بہوساس کو، مردوں کو بھی عام طور پریہ لڑکیاں، بیویاں بن کر بہت تنگ کرتی ہیں توگزارش یہ ہے کہ آپ کے اندر مہربانی ہو، آپ کے اندر یہ احساس ہو شکر گزاری کا کہ ربّ نے آپ کو اس زمانے میں پیدا کیا ہے جہاں عزت ہے، والدین جان سے مارتے نہیں ہیں، زندہ گاڑتے نہیں ہیں۔ آپ کو یہاں بٹھایا، اتنے بڑے آڈیٹوریم میں، پردے لگاکے۔ صرف آپ سے بات کرنے کے لیے اتنے انتظام کیے گئے ہیں، آپ کو لوگ سن رہے ہیں، آپ سے کہہ رہے ہیں۔ عمدہ ترین کپڑے آپ کو ملتے ہیں،خوش ذائقہ کھانا آپ کو ملتا ہے۔ کام کرنے، پڑھانے کا موقع ملتا ہے بلکہ جو کچھ آپ کو چاہیے ملتا ہے، عمدہ صاف ستھری بس آپ کو ملتی ہے آنے جانے کے لیے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو آپ کو مارنا چاہے،گاڑنا چاہے، ایسے میں وہ کیسے استاد ہوتے ہیں جو بچوں کو سنگلوں سے باندھ کے مارتے ہیں! کوئی ظالم تھپڑ مار کراپنے معصوم سے طالب علم کی آنکھیں نکال دیتا ہے تو دل دکھ سے پھٹنے کو آجاتا ہے۔ جب کسی گھر بچی آکر کہتی ہوگی کہ استاد نے مجھے مارا ہے تو کیا دل نہیں دکھتاہوگا۔ آپ محسوس کریں کہ کہیں کچھ بے رحمی ابھی تک باقی ہے ہمارے اندر جو ہمیں دوسروں کے بچے اپنے نہیں لگتے۔ اسی لیے ہم ان کوکبھی پورے دھیان سے اور کبھی بے دھیانی سے مار بیٹھتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم استاد ہیں۔اور استاد علم میں کمزور ہو سکتا ہے محبت اور توجہ میں نہیں۔
جناب اختر عباس کی کتاب “وننگ لائن پر کون پہنچاتا ہے” سے ایک تراشا
