آپ لوگ وعدے نبھانے میں کیسے ہو

میں ایک روز جب پھول میں گزری اپنی زندگی کے تیرہ سالوں کے آخری سنگ میل پر بیٹھا یہ سب سوچ رہا تھا تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی، میں اُٹھنے سے سے پہلے اس تحریر کو مکمل کرنے کا آرزو مند تھا۔۔۔۔ سوچ میں تھا کہ کیا لکھوں، بے شک ان برسوں کے بے لوث سفر میں کتنے ہی لفظوں، جذبوں، ٹیلی فونوں، خطوں، پڑھنے والوں کی محبتوں اور دعاؤں کا رَ س ملا تھا،ابھی ۵۱۰۲ میں ایک روز حافظ رفیق صاحب مجھے آفس سے اُٹھا کر ماڈل ٹاون لے گئے تھے،وہاں کئی حیرتیں میری منتظر تھیں،خوبصورت سفید سوٹوں میں ملبوس دو سو کے قریب بچے جنکے اخراجات کا پورا اہتمام میاں عامر ذاتی طور پر کرتا ہے۔۔۔۔۔
یہ سب بیکن ہاوس جیسے سکولوں سے دو برسوں کے لئے اپنے اپنے سکول چھوڑ کراللہ کے پاک کلام کو یاد کرنے یہاں جمع تھے، کوئی بھی کم وسیلہ و کم قامت نہ تھا،جن گھروں سے ان کا تعلق تھا ان سے لوگ عام طور پر ایسی توقع نہیں رکھتے،میں ان سے تادیر باتیں کرتا رہا،سب سامنے بیٹھے تھے،خدا جانے کیا ہوا میرے منہ سے اچانک نکلا ”آپ لوگ وعدے نبھانے میں کیسے ہو، ایک وعدہ مجھے بھی دے دو تو تمہارا کیا جائے گا“۔۔۔۔۔
کہتے ہیں ایک اچھا سعید اور باعمل حافط سات سات لوگوں کے لئے رب کی اجازت سے ان کی بخشش کے لئے سفارش اور گزارش کرسکے گا،پلیز میری ایڈوانس بکنگ کرلیں کیونکہ ابھی تو آپ کے گھر والوں نے بھی کسی سے وعدہ نہیں لیا ہوگا، پہلے سات نے ہاتھ اٹھائے پھر دس اور بارہ ہوگئے تین اساتذہ نے بھی وعدہ کرلیا، رفیق صاحب میری معصومیت پر مسکرائے یا چالاکی پر، ان کی طرف سے بھی ہاں تھی،وہ خوش تھے کہ ان کے بچے اتنی ساری محبت بھری باتوں سے خوش تھے،مجھے اور کیا چاہئے تھا۔
جناب اختر عباس کی کتاب “اللہ جی کو میرا سلام کہنا” سے ایک تراشا

مکمل کتاب پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں