ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے کہ زندگی چپ چاپ آکر کسی نہ کسی کے ساتھ کھیل جاتی ہے۔ اور وہ یوں منہ دیکھتا رہ جاتا ہے، جیسے بے دھیانی میں سٹیشن سے وہ گاڑی نکل گئی ہو جس پہ اس کی پکی بکنگ ہو۔کیا ضروری ہے کہ ایسی تپش کا سب کو تجربہ ہو، پھرہی خیال آئے، پھر ہی بات سنی جائے، پھر بیٹھ کر سر دھنا جائے اور واپسی کا سوچا جائے۔ جیسے روٹی پکنے کے مراحل جاننے کے لیے تنور میں دیکھنا ضروری نہیں، ایسے منزل کھو دینے کے دکھ کی تپش کا احساس بھی تنور میں دیکھے بنا کیا جا سکتا ہے۔ جلتی دیواروں کی ساری شدت اور حدت کو احساس کی انگلی کے پوروں سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
جناب اختر عباس کی کتاب “دل پہ دستک” سے ایک تراشا
