”تمہاری یہ سہیلی تو دریا سے نکلی تازہ مچھلی جیسی ہے ، ہاتھوں سے پھسلے جاتی ہے۔“
جانے اتنے سالوں بعد امی کی کہی ہوئی یہ بات میرے ساتھ آکر کب بےٹھ گئی ہے اور میں دکھ اور حےرت سے یوں بھری بےٹھی ہوں جےسے ہسپتال کا یہ کمرہ ، بے آواز چلتے اے سی کی ٹھنڈی ہوا ، ابھی واپس جاتے ڈاکٹر کی سرد مہری اور اس کی بتائی باتوں کی مایوسی سے بھرا ہے ۔
”شرمین ۔ شرمین۔“ میں نے دھیرے دھیرے اسے پکارا ہے ۔ وہ خود ہی تو کہا کرتی تھیں ۔ افشین! تم کو بنانے والے نے لہجے کی وہ مٹھاس دی ہے کہ کبھی بند کتاب کے کسی ورق کو کھول کر دھےرے سے پڑھ لو تو وہ لفظ زند ہ ہو کر بےٹھ جائےں۔ اس نے میری آواز کا جواب تو درکنار ، اشارے سے وصولی کی رسید تک نہےں دی ۔ ایک لمحے کو میرا جی چاہا کہ اس کو جھوٹی کہہ دوں ۔ مردہ لفظوں کے زندہ ہونے کی باتےں کرنے والی خود تو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کے احساس سے دور ہے۔ وہ چپ تھی مگر وہ چپ سکون جیسی نہ تھی ۔ وہ گل مہر کی طرح تھی ۔ اب یوں مرجھائی سوئی پڑی ہے جےسے بےداری کی زندگی سے اس کا کبھی واسطہ ہی نہ رہا ہو۔ ابھی ابھی دروازہ کھول کر باہر جانے والا ڈاکٹر جب اس کی رپورٹس دیکھ کر ، کندھے اُچکا کر بولا تھا تو وہ مجھے کسی قحط زدہ علاقے میں کام کرنے والے اس بے حس سرکاری اہل کارجیسا لگا تھا جس کے ہاتھ ہی نہےں دل اور لفظ بھی امید اور آس کے لفظوں سے خالی ہوں۔ ڈاکٹر بناتے ہوئے میڈیکل کالج والے اتنے لیکچر دےتے ہےں، اتنی کتابےں پڑھاتے ہےں ۔ کیا ہی اچھا ہو جو تھوڑے ےقےن بھرے مےٹھے بول بھی سکھا دیا کریں ۔ جاتے مرےض کے سانس نہےں لوٹا سکتے تو ساتھ آئے زندہ وجودوں کی سانسوں کو اپنے بے مہر لفظوں سے تو نہ روکا کریں۔ پہاڑی چشمے کے پانیوں جےسے سرد لہجے والا ڈاکٹر کےسے جان سکتا تھا کہ یہ جو خوبصورت اور معصوم سے وجود والی لڑکی آخری سانس لے رہی ہے، ان دنوں پورے ملک میں اکیلی ہے ۔ اس کا چھوٹا بھائی اور ماں سات سمندر پار بڑے بےٹے کی زندہ درگور ہوجانے والی بیوہ بہو کو پرسا دےنے اور اپنے بےٹے اور اس کی دو معصوم بےٹیوں کی مےتےں لےنے گئے تھے۔ جہاںائرپورٹ پہ چھوٹے بےٹے کی داڑھی دیکھ کر اےف بی آئی والوں نے اسے تحقےقات کے لےے روک لیا اور بوڑھی ماں کو باہر جانے کا راستہ دکھادیا۔ جہاں نہ کوئی اسے جاننے والا تھا نہ سنبھالنے والا ۔ جس بےٹے کی محبت انہےں کشاں کشاں وہاں لے گئی تھی وہ منوں مٹی تلے جا سویا تھا ۔
”محبت کی دنیا اور ہے اور دنیا کی محبت اور شے ہے ۔“ امی یہ کہہ کر خاموش ہو جایا کرتی تھےں۔ میں شرمین کے بےڈ کے ساتھ کرسی لگائے بے دھیانی میںدور نکل گئی تھی ۔ مےرے لےے لفظوں کا یہ استعمال ہی نہےں مفہوم بھی نیا تھا ۔ وہ ہاتھ میں پیام مشرق لےے ایک شعر پہ نشان لگا کر فارغ ہوئےں تو مجھے جوڑ کر کے سمجھانے لگےں۔ تمہیں پتا ہے مرشد نے ایک کہانی بھی رقم کی ہے ۔ وہ علامہ اقبال کا ذکر ہمیشہ مرشد کہہ کر کیا کرتےں۔ اسی لےے اقبال مجھے غےر نہےں اپنے اپنے بلکہ گھر کے بڑے ہی لگتے رہے ہےں۔ یہ کہانی شرف النساءکی ہے جو لاہور کے مغل گورنر عبد الصمد کی بےٹی تھی ۔ یہ جی ٹی روڈ پر جو انجےنئرنگ ےونےورسٹی ہے نا ۔ اس کے پےچھے اس کا مقبرہ ہے ۔ زمانے گزر گئے مگر مقبرے کا نشان باقی ہے ۔ ادھر مرشد نے شہزادی کا نام امر کر دیا ۔ شہزادی شرف النسا عجےب لڑکی تھی ۔ خوبصورت ، خوب سےرت ۔ چلتی تو ہوا ئےں مسکراتےں، بات کرتی تو پھول جھڑتے۔ اتنی پیاری ہونے کے باوجود وہ سب سے مختلف تھی ، مانو کسی اور مٹی سے بنی ہوئی ۔۔۔۔ صبح اٹھ کر پھولوں سے سجے تخت پہ تلاوت کرنے بےٹھتی تو اس قدر خوش الحانی سے قرآن کی آےات پڑھتی کہ محل میں رہنے والے سب کام چھوڑ کر متوجہ ہوجاتے، اس کی بلائےں لےتے ۔ کہتے ہےں اس کی مالک سے محبت سب سے مختلف اور انوکھی تھی ۔ وہ ایک کام عجےب کرتی ، تلاوت کرنے سے پہلے وہ اپنی تلوار منگواتی، اسے نیام سے نکالتی اور پھر رحل کے اوپر رکھ لےتی ۔ اس کا یہ معمول دیکھ کر کچھ عزےزوں ، کنیزوں نے بار ہا وجہ درےافت کی تو شرف النسا مسکرا کرخاموش رہتی ۔ اس نے کبھی کھل کر جواب نہ دیا ۔ اپنی وفات سے ذرا پہلے بالآخر اس نے اپنی ماں پہ یہ راز کھول دیا ۔ ۔۔ ماں یہ تلوار تو ایک طاقت ہے اور قرآن ایک قانون ، قانون طاقت کے بنا نافذ نہےں ہو سکتا اور قانون کے بغےر طاقت انصاف نہےں کر سکتی ۔ یہ لازم و ملزوم ہےں ۔ اسی لےے عمر بھر ان دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا ۔ ماں نے بےٹی کے ہونٹوں سے حکمت اور دانش بھرے جملے سن کر کیسی خوشی اور کتنا فخر محسوس کیا ہوگا ۔ اس کا اندازہ میں بخوبی لگا سکتی ہوں کیونکہ ایک روز شرمین یہ کہانی سن کر کتنی دےر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھتی رہی تھی ۔ کوئی نازک اندام شہزادی اس قدر سےانی اور دانش مند بھی ہو سکتی ہے۔ وہ ٹک ٹک امی کو دیکھ رہی تھی ، جو شرف النسا کی کہانی یوں سنا رہی تھیں جےسے خود وہاں موجود ہوں ۔۔۔۔ اب سوچتی ہوں بہت بار اےسا بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ جو کام خود کرنے کے خواہاں ہوں اور نہ کر سکیں تو اولاد سے اس خواب کی تعبےر کے متمنی ہوتے ہےں ۔ بن کہے ۔۔۔۔ بن بولے ۔۔۔۔ آس لگا کر بےٹھ جاتے ہےں کہ بچے وہ بڑائی کر کے دکھائےں ۔ شرف النسا کی کہانی ابھی ادھوری تھی ۔ علامہ نے اس کی قبر کے بارے میں جب یہ کہا کہ لاہور کی سر زمین عرش جیسی اعلیٰ ہے کہ وہ یہاں دفن ہے ۔ یہ بتاتے ہوئے امی کی آنکھوں کی چمک بہت بڑھ گئی تھی ۔ تمہےں پتا ہے پھر مرشد اقبال نے اپنے مرشد رومی کی قےادت میں جنت جانے کا تذکرہ لکھا ہے ۔ جنت کے اندر داخل ہوتے ہی انہےں تلاوت کی آواز سنائی دی ۔ ایک خوب صورت دل نشےن ، روشن اور معطر محل سے جو سارا زمرد سے بنا ہوا تھا ، ان کے سامنے تھا۔ اس میں اےسے لعل و جواہر جڑے تھے جو آنکھوں کو خیرہ کےے دےتے تھے ۔ نہ کسی نے اےسے جواہر دیکھے نہ سنے ۔ معلوم ہوا وہ خوش نما محل اسی خوش گلو اور خوش فکر مغل شہزادی شرف النسا کا تھا جو دنیا کی محبت کی بجائے مالک کی محبت کی دنیا میں جےتی رہی تھی اور اسے پاکیزگی ہی نہےں ہمت ، جرا ¿ت اور غےرت کی علامت کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
میں کلاس میں ہمیشہ شہزادیوں کی طرح ہی جانی جاتی رہی اور اس کی اصل وجہ میری امی تھےں۔مےرے پہناوے سے لے کر پڑھائی کی جزئےات تک کا وہ اےسے ہی خیال رکھتےں جےسے کسی شہزادی کا رکھتی ہوں ۔ پیار او ر توجہ کی ندی میں اپنی والدہ کے ساتھ ےوں بہتی رہی جےسے دو کشتےاں ساتھ ساتھ بہے جاتی ہےں ۔ دوسروں سے محبت اور خیرخواہی اور خوش گمانی کی امی نے اےسی تربےت کی کہ مےرے لےے زندگی بہت آسان ہوگئی ۔ شرمین سے دوستی کی ابتدا سکول کے انہی دنوں میں ہوئی۔ میں دوسروں کی خوبیوں پہ جلنے ، حسد کرنے کی صلاحےت سے ہی محروم تھی۔ کسی کو آگے بڑھتے دیکھتی ، کسی بات میں نمایاں پاتی تو پورے دل سے تعرےف کر دےتی۔ جہاں جہاں ممکن ہوتا ، کسی توقع اور تمنا کے بنا کام آجاتی۔ شاید قدرت نے اسی مزاج کے انعام کے طور پہ مےرے لہجے کو شےرےں کر دیا تھا جو شرمین کو بہت بھاتا تھا۔
وہ کہتی افشین ! تو مجھے بہت پیاری ہے ۔ تےرا اچھا برا بھی بہت عزےز ہے ۔ پر کیا کروں ، تیری شرف النسا مےرے حلق سے نہےں اترتی ۔ مجھے تو شرمیلا ٹےگور پسند ہے ۔ ناچتی گاتی ، آزادی سے خوشیاں مناتی ۔ مغلوں نے بھی ہندوستان پہ راج کیا اور یہ بھی ہندوستانی ہے ۔ مجھے الزبتھ ٹیلر پسند ہے ۔ صوفیہ لورےن پسند ہے ۔ بڑی تہذےب ، بڑا ملک اور بڑی سوچ والے لوگ ہےں۔ بس تو مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ مجھے رنگوں کی تمےز بھی آگئی ہے اور لوگوں کی بھی ۔ اچھا برا بھی اچھی طرح نظر آتا ہے لیکن میں کیا کروں ۔۔۔۔ آزادی ، خود مختاری اور برابری کے لےے مےرے اندر بہت تڑپ ہے۔ سارے خواب انہی کے ہےں۔ دیکھنا میں آنے والے کل کےسے راج کرتی ہوں ۔۔۔۔ یہ دنیا بہت بڑی ہے ۔ آدمی سے بھی بڑی ۔۔۔۔ اس کا شمار قطار حد حساب ہی نہےں ۔ اس کی سمتےں فاصلے بے شمار ۔ پھر اس میں رہتے ہوئے میں کےسے پابند ہو جا ﺅں ۔ میں ایک دائرے میں رہنے ، دیکھنے ، سننے پہ اپنے آپ کو آمادہ ہی نہےں کر پاتی ۔ مےرے لےے یہ شرف النسا کی ایک کتاب ، ایک تلوار کافی نہےں ہے ۔۔۔۔ میں اس سے بہت آگے کی انسان ہوں ۔ اس کی باتےں کبھی تو چاول میں آئے کنکر کی طرح ہوتےں۔ کبھی چبھ جاتےں ، کبھی بھول جاتےں۔ امی سے آکر ان کا تذکرہ کرتی تو وہ کہتےں۔۔۔۔ بےٹا مسابقت اور بقا کی دوڑ بے شک آنے والے کل میں زندگی کی سب سے بڑی سرگرمی ہوگی ۔ بنانے والے نے دنیا کو اسی اصول پہ بنایا ہے ۔ یہ ترقی کے لےے ہے ۔ تنزلی کے لےے نہےں۔ آگے بڑھنا، اچھا سوچنا، ترقی کا زےنہ ہے ۔ زندگی کا قرےنہ ہے ۔ یہ نہ ہو تو زندگی کی ساری دوڑ دھوپ ہی ختم ہوجائے ۔ سارا کاروبار زندگی رک جائے ۔ مگر یاد رکھنا میری بچی ! اپنے خوابوں کو اپنی ہی رواےات کی مٹی میں بونا، یہ کسی اور جگہ جڑ پکڑ سکیں گے نہ عزت پا سکیںگے۔ پھوٹ بھی پڑے تو پھل زہریلاہوجائے گا ۔ اپنے ہےروز اپنے تصور میں زندگی کی بنےادوں کو مضبوط کرتے ہےں ۔دوسروں کی بنی عمارتوں پہ دور سے خوش ہوا جا سکتا ہے۔ ان کی دی ہوئی سہولتوں کے قرےب جانے کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ اندر داخل ہونے اور قابض ہونے کی قیمت الگ ہے ۔ اور اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کنپٹےاں تک جلا دےتی ہے ۔ گیرےژن سکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی کے سفر میں شرمین کہا کرتی تھی ۔۔۔۔”میری ماں نے مجھے اپنے اور مذہب کے پلو سے باندھنے کی بہت کوشش کی مگر کیا کروں یا تو گرہ ہر بار ڈھیلی ہوجاتی یا پھر میں خو د اسے ڈھیلا کر لےتی اور پلو سے نکل آتی۔“
مجھے زندگی بھر ایسی کوئی کوشش کرنے کا اتفاق ہوا نہ ضرورت پیش آئی ۔ میری امی نے تب ایم اے کیا تھا جب اکثرےت کو ایم اے کے لفظ اردو میں لکھنے بھی نہ آتے تھے۔ مجھے اپنی امی ہمیشہ عزیز اور محبوب رہیں کہ وہ کتابی باتےں نہ کرتی تھےں۔ ان کے پاس جو کچھ تھا ۔۔۔۔ ویلیوز ، رواےات ، خواب ، سب ان کے اپنے سوچے اور پورے ےقےن سے بُنے ہوئے خیال تھے۔ اےسے میں کوئی مصنوعی باڑ باندھنے کی نوبت ہی کیوں آتی ۔ کسی گرہ کی ضرورت ہی کیوں رہتی ۔ امی کبھی گلستان سعدی میں سے اور کبھی مرشد اقبال کی پیام مشرق سے جب اشعار فارسی لہجے میں پڑھتےں تو بہت اچھا لگتا تھا ۔ وہ بتاتےں پیام مشرق جرمن مفکر گوئٹے کے پیغامِ مغرب کا جواب تھا اور دنیا بھر میں اس کا بہت چرچا ہوا تھا ۔ فارسی کی مٹھاس اور دانائی انہی اشعار نے مجھے عطا کی ۔ اب جب کبھی مےرے میاں گھر میں کبھی کسی فارسی شعر پہ پھنستے ہےں تو مجھے آواز دےتے ہےں اور میں امی ہی کے لہجے اور انداز میں وہ شعر پڑھ کر انہےں سمجھانے بےٹھ جاتی ہوں ۔ امی سچ کہتی تھےں سچے علم سے زندگی زیادہ سمجھ آتی ہے ، یہ برداشت اور تحمل کی قوت ہی فزوں نہےںکرتا، علم کی تاثےرکو تقسیم کرنے اور دوسروں کو آسانیاں دےنے کی توفےق بھی بڑھاتا ہے ۔
”تجربوں اور کامےابی کے لےے درازی ِ عمر ضروری نہےں ، کم عمری کے باوجود زندگی بہت کچھ آئےنہ دکھا دےتی ہے ۔۔۔۔ “ےہی بات تھی جو شرمین نے گذشتہ سال ہمارے گھر رات کے کھانے پہ کہی تھی ۔ ”گھر اور جگہوں سے کیا ہوتا ہے سب کچھ مکینوں سے ہے ۔ میں نے بڑی جگہوں پہ چھوٹے لوگ اور چھوٹی جگہوں پہ بڑے لوگ دیکھے ہےں ۔ ہر جگہ کی اپنی مشکلیں ، اپنی آسانیاں ہوتی ہےں ۔ تمہاری امی صحےح کہتی تھےں ۔ قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ قیمت بے شک بڑی ہے مگر میں اپنے خوابوں اور آزادی سے دستبردار نہےں ہو سکتی ۔۔۔۔ عزت ، انا اور انفرادےت سبھی کی قربانی دےنی پڑتی ہے ۔ “
یونیورسٹی کے دنوں میں ہی اس نے ٹی وی کے لےے ماڈلنگ شروع کر دی تھی۔ پھر وہ ایک اےڈورٹائزنگ ایجنسی میں چلی گئی اور وہیں سے اس نے جمپ لگایا اور ایک انٹرنیشنل ڈونر ایجنسی کو جوائن کر لیا ۔۔۔۔ اتنی کامےابی پر بھی وہ مطمئن نہ تھی۔ اس کی نگاہ ہر طرف تھی ۔ چار سمتوں کے تو صرف نا م ہیں ۔ جدھر نگاہ اٹھتی وہی اس کی سمت ٹھہرتی ، وہی ہدف قرار پاتی ۔ ترقی کے لےے اس کے خوابوں کو کسی پل قرار نہ تھا ۔ تبھی ایک روز اس کا فون آیا ۔۔۔۔ افشین!تھوڑا وقت چاہےے تم سے۔ پچھلے دنوں میں بےن الاقوامی کانفرنس میں جرمنی گئی تھی ۔ تمہارے اقبال صاحب پر وہاں بڑا کام ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹر اےن میری شمل سے ملاقات بھی ہوئی اور باتےں بھی ۔ آنٹی کسی مغل شہزادی کا ذکر کیا کرتی تھےں ۔۔۔۔ کوئی شرےف سا نام تھا اس کا۔ ڈاکٹر شمل نے تو کئی مغلیہ شہزادیوں کا ذکر کیا ۔ بانگ درا ہے نا ۔۔۔۔ اس میں غلام قادر روھیلہ پر پوری نظم تھی جو انہوں نے مجھے سنائی ۔ کس قدر ظالم آدمی تھا یہ روھیلہ ۔ طاقت اور دھوکے سے غالب آیا تو مغل بادشاہ کی آنکھےں نکال دیں پھر اس کے حرم کو رقص کا حکم دیا ۔ جن شہزادیوں کا چشم فلک نے پورا چہرہ نہ دیکھا تھا وہ ننگے سروننگے پاﺅں لرزتی ناچتی تھےں اور آنکھوں سے آنسو بہاتی تھےں ۔۔۔۔ پھر اس ظالم نے کیا کیا کہ اٹھ کراپنی کمر سے خنجر کھولا اور وہیں آرام کی غرض سے لےٹ گےا ۔ جانے تھکا ہوا تھا یا فتح کے بعد کے خواب دیکھ رہا تھا ، یوں لگا جےسے سو گےا ہو ۔۔۔۔ پھر وہ اچانک اٹھ کے بےٹھ گےا اور بادشاہ کی رانیوں اور بےٹےوں سے بولا ”تم کو اپنے مقدر سے شکاےت نہےں کرنی چاہےے ۔ میں مسند پہ سویا نہ تھا۔ البتہ سوتا بننے میں بناوٹ تھی ۔ تکلف تھا کیونکہ جو معرکے مارتے ہیں غالب رہتے ہےں اور فاتح قرار پاتے ہےں ۔ وہ غفلت کی نےند سے دور ہوتے ہےں۔
یہ مقصد تھا مرا، اس سے کوئی تیمور کی بےٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے مےرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گےا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
پھر جانے یک دم کیا ہوا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔۔۔ بولی افشین! ”تمہیں پتا ہے میں بھی انہی مغل شہزادیوں میں سے ہوں ۔۔۔۔ اتنے سالوں سے ننگے سر اور ننگے پاﺅں رقص میں ہوں ۔۔۔ ۔ بس مےرے قادر روھیلہ کا نام بدل گےا ہے ۔ وہ سات سمندر پار بےٹھ کر پل پل کی خبر رکھتا ہے ، جاگتے سوتے جملے کستا ہے ۔۔۔۔ سوتا ہے تو بھی اس ےقےن کے ساتھ کہ اس کے حکم کی تعمیل میں کمی ہوگی نہ رقص رکے گا ۔۔۔۔ اور احتجاج بھی نہ ہوگا ۔ تمہیں پتا ہے میرا بھائی طاہر مغل واشنگٹن ڈی سی میں تھا ۔ دو معصوم بچیوں کے ساتھ ۔۔۔۔ قادر روھیلہ نے اسے سٹور سے نکلتے ہوئے کسی جرم و قصور کے بغےر مار دیا اور دونوں بچیوں کو گھر پہ ۔۔۔۔ ماما کے سامنے تڑپا تڑپا کر ۔۔۔۔ میں بھی تو انہی Killers کے لےے کام کرتی ہوں۔ یہ انہی کی ڈونر ایجنسی ہے ۔۔۔۔ میں کیا کروں؟ انہی کے اشاروں پہ ناچتی ، ان کے حکموں پہ مال روکتی ، تقسیم کرتی ۔۔۔۔ اتنا نام ، منصب اور مرتبہ ۔۔۔۔ چھوڑوں بھی تو کےسے ؟ اور وہاں رہوں بھی تو کےسے؟“
شرمین مجھے بے شک بہت پیاری تھی مگر اس جےسے لوگ عجےب ہوتے ہےں ۔ ایک بند کمرے کا ایسا دروازہ بن جاتے ہیں کہ جب داخل ہوں ، دم گھٹتا محسوس ہو ۔۔۔۔ اس روز مجھے ےوں لگا بند کمرے میں گھٹن کم ہو رہی ہے ۔۔۔۔ سوچ کا کہیں کوئی ننھا منا سا در کھلا ضرور تھا۔ شرمین کوئی عام سی لڑکی ہوتی تو کب کی مری یادوں کی کھلی کتاب پہ پڑی مٹی اوڑھ کر مےٹھی نےند سو چکی ہوتی اور جو میری امی عام سی امی ہوتےں اور انہوں نے مجھے دوسروں سے محبت کرنا نہ سکھایا ہوتا، اختلاف رائے کے باوجود احترام اور مروت کا سبق نہ پڑھایا ہوتا تو شرمین میری محبت کے پانیوں میں تےرنے چپکے چپکے وقفے وقفے سے کیوں آتی رہتی؟
یونیورسٹی کا آخری سال تھا جب ہم ایک اسائنمنٹ کے لےے ایوان اقبال گئے تھے ۔ کیا بھلا سا نام تھا ، مصور کا ، اسلم کمال، ہاں علامہ اقبال کے اشعار پہ بنائے ہوئے ان کے پورٹرےٹ اور مصورانہ عکاسی کو شرمین کتنی ہی دےر دنیا و مافیہا سے بے نےاز دیکھتی رہی تھی ۔۔۔۔ پھر ایک خوبصورت موٹی موٹی آنکھوں والی لڑکی کے بارے میں پوچھ بےٹھی۔ دھیمے لہجے میں بات کرنے والے مصورنے بتاےا۔”یہ قراة العےن طاہرہ ہے ۔ یہ اس قدر حسےن تھی کہ کسی کی نگاہ نہ ٹکتی تھی ۔۔۔۔ اس کی شہرت حسےن ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعرہ ہونے کی بھی تھی ۔ اس کی شاعری باغیانہ بھی تھی اور اےران کے سرکاری مذہب کے خلاف بھی ۔۔۔۔ اس کو بابیہ کہاجاتا تھا ۔ بادشاہ وقت نے سزائے موت کا حکم سنایا اور پھر مشیروں سے کہا اس کی بخشش کا کوئی سامان کرو ۔۔۔۔۔ اسے کہو اپنا موقف چھوڑ دے ۔ ہم معاف کر دےں گے یا اسے کہو ہمارے حرم میں ملکہ بن کے آجاﺅ پھر بھی در گزر کریں گے اور موت سے بچا لےں گے ۔ علامہ کو یہ خاتون بابیہ ہونے کے باوجود اپنی خودی کے باعث بے حد پسند تھےں۔ انہوں نے اس کی خود داری اور خودی پہ لکھا ۔ اس خوبصورت اور خود دار خاتون کو بعد میں گلے میں تار ڈال کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گےا۔۔۔۔
پوری بات سن کر شرمین نے کہا۔
اچھا آپ کے اقبال صاحب تو خاصے کھلے دل و دماغ کے مالک تھے۔
اسلم کمال مسکرا کر رہ گئے تھے۔
بہت بار ایسا ہوتا ہے کچھ باتےں، واقعات ، آپ کے سامنے رونما ہوتے ہےں اور آپ ان کا رزلٹ نکالنے نہےں بےٹھ جاتے ۔شرمین کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا رہا ۔۔۔۔ بے شک کسی دوست سے ربط ضبط کبھی عقل سے سوا بھی ہوجاتا ہے ۔ بے اختےاری سی ہو جاتی ہے ۔ یہ جنون نہےں زندگی ہے اور زندہ آدمی ارادے سے ہوتا ہے ۔ آدمی ۔۔۔۔ اپنا تو اپنے ارادے سے ہوتا ہے ۔ اس کا نام، چہرہ وہی رہتا ہے ۔ رفتار ، گفتار بھی وہی ۔۔۔۔ مگر بس ایک گماں ، ایک قیاس ۔۔۔۔ جانے کتنے لوگ چلتے پھرتے زندگی میں شامل رہتے ہےں مگر کوئی نہےں جانتا کہ وہ کتنے زندہ ہیں ۔ ان کی زندگی کتنی اپنی اور کتنی پرائی ہے ۔
شرمین کی بے ہوشی کا یہ تےسرا دن ہے ۔ کہتے ہےں دعاﺅں کی قبولےت کی بھی گھڑی ہوتی ہے ۔ زندگی گزر جاتی ہے اور کسی کے لےے وہ گھڑی نہےں آتی ، میں نے کچھ اور مانگا ہوتا تو وہ بھی مل جاتا ۔ میں نے تو صرف شرمین کے ہوش میں آنے کی نامکمل سی دعا کی تھی اور کےے جا رہی تھی ۔۔۔۔ اچانک وہ کسمسائی ہے ۔ دھےرے دھےرے آنکھےں کھولےں۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی ہے ۔۔۔۔ وہ بولنا چاہتی تھی ۔ کتنے پل ہمت جمع کرتی رہی پھر اشارے سے میرا ہاتھ مانگا اور تھام کے بولی ۔
”افشین! پتا ہے میں نے روھیلہ کا خنجر اٹھا کر اس پہ وار کردیا ہے ۔۔۔۔ پورے ملک میں ایجنسی کا جتنا نظام تھا وہ صرف پےسے کی تقسیم کا نہیں ۔ وفاداریاں خرےدنے کا تھا ۔ اپنی مرضی کے ان لوگوں کو کاشت کرنے کا، جس کا پھل وہاں واشنگٹن میں بےٹھے بڑوں کو بھائے ۔۔۔۔ افغانستان میںرےلےف کا کچھ کام بھی میری زیر نگرانی ہوا تھا۔وہاں ہم پےسے بھی ملک و ملت سے بے وفائی کرنے والوں کو دےتے تھے ۔۔۔۔ضرورت مندوں کو نہےں ۔ ہاں یہ تمہارے اےٹمی سائنس دان ڈاکٹر ۔۔۔۔ بھی کئی جگہوں پہ ریلیف کے کام کرتے ، ہمارے بڑوں کو بہت چبھتے تھے، تبھی ان کو اٹھوا لیا گےا اور بانٹو روٹےاں اور لگاﺅ پلانٹ روٹےوں کے ۔۔۔۔ کہتے تھے۔ یہ روٹےوں کے پردے میں اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم کو اےٹمی اسلحہ دےنے والا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے تو چاہے کچھ نہ کیا ہو ۔ میں ان کی کمر توڑنے والا کام کر چلی ہوں۔
تمہیں پتا ہے گذشتہ کئی ہفتوں سے میں نے جہاں جہاں مقامی لوگوں سے ملاقاتےں کیں، ان کو روھیلہ کے سامنے مزید رقص سے منع کر دیا ہے ۔ ان کی کمزوریوں کی فائلیں تلف کر دی ہیں ۔ انہوں نے مےرے ایک بھائی کو مار دیا ۔۔۔۔ ماں کو دربدر کر یا ۔ دوسرا بھائی بے سروپا الزامات کو بھگت رہا ہے اور میں ان کے اشارے پر ان کی خدمت کے لےے لوگ تےار کےے جاتی ہوں۔ جس روز سے میں نے ملک سے بے وفائی کرنے والوں کا ریکارڈ اور ان کے کارنامے اور اپنی ایجنسی کی غےر قانونی نوازشات کی فلاپیاں حکومت کے علاوہ کچھ اور حساس تنظیموں تک پہنچانے کے منصوبے پر کام کر رہی تھی وہ مجھے مزید ترقی کے مواقع دکھانے چلے آتے تھے ۔ اختےارات کی مزید آزادی ۔۔۔۔ سہولتوں کی ناقابل تصور جنت ۔۔۔۔ ساﺅتھ اےشےا کے انچارج کے طور پر تقرری مگر رقص جاری رکھنے کی فرمائش کے ساتھ ۔۔۔۔ مگر سمجھ نہےں آئی مجھے کیا ہو گیا ہے ۔ کبھی قراة العےن طاہرہ نظر آتی ہے ، کبھی روھیلہ کے دربار میں ناچتی شہزادیاں، مایوس ہو کر انہوں نے آفس میں ہی مجھ پہ قاتلانہ حملہ کر وایا شایداسی ڈرسے جس سے بابیہ کو مارا تھا ۔۔۔۔ جب اس نے اپنی رائے بدلنے سے انکار کر دیا تھا۔
سنو افشین!
میں جو مر گئی تو کیا تمہاری شرف النسا مجھے اپنے زمرد والے محل میں آنے دے گی ۔۔۔۔ مےرے پاس قرآن اور تلوار نہ سہی ۔۔۔۔ مگر وہ مجھے اچھی لگنے لگی ہے ۔۔۔۔ تیموری شہزادیوں سے خنجر نہ اٹھانے کی جو بھول ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں نے اپنے تئےں کفارہ ادا کر دیا ہے ۔ جا ن تو وےسے بھی جانی تھی اب اپنی عزت ، انا ، اور خود داری کے ساتھ دے رہی ہوں ۔“
میں تو اسے ےقےن بھی نہ دِلا پائی تھی جب وہ دریا سے نکلی کسی تازہ مچھلی کی طرح ہاتھوں سے پھسل گئی ۔ شام ابھی بھےگی نہےں تھی جب اس نے مسکراتے ہوئے مےرے ہاتھوں میں دم دے دیا۔
بھائی بتا رہا تھا وائی بلاک کے صاف ستھرے سے قبرستان میں، جہاں قرےب ہی ایک چھوٹا سا تالاب تمہارے آنسوﺅں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ اسے دفنا آئے ہیں
