سعودی عرب ، عوامی قبولیت کا پہلا ٹیسٹ

اختر عباس

جدہ ایر پورٹ پر کئی حیرتیں میری منتظر تھیں پہلی تو یہ کہ امیگریشن کا تکلیف دہ اور کئی گھنٹوں کے دورانئے پر پھیلا رہنے والا طویل مرحلہ سکڑ کر قریباََ آدھ گھنٹے میں مکمل ہو چکا تھا ،وہ سارے پھل اورکھانے پینے کی چیزیں جو اس مشکل وقت کے لئے لاہور سے الگ بیگ میں لے کر گیا تھا ان کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آئی،انگلیوں کے نشان لیتے ہی پاسپورٹ اور ویزے کی سکیننگ ہوئی اور پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگ گئی،میں بڑے سکون سے دنیا کی انیسویں بڑی معیشت جو چند برسوں میں پندرھویں نمبر پر آنے کے تیز رفتار سفر پر ہے میں اپنے روحانی سفر کے لئے داخل ہو چکا تھا ،دوسری حیرت کسی اور کو شائد محسوس بھی نہ ہوئی ہو میں اس پر باقاعدہ چونکا یہ کارپوریٹ دنیا کی ایک اصطلاح ہے اور اس کا ایک خاص پس منظر اور مفہوم ہوتا ہے اور اس پر عمل درآمد کا ایک میکانزم ہوتا ہے جو عام طور پر سرکاری عمال اور عملے کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی ،اس کے باقاعدہ ٹولز اور چھوٹے چھوٹے گولز بنائے جاتے ہیں تب جا کر اس کا حصول ممکن ہوتا ہے یہ وژن 2030 تھا جو ایر پورٹ پر لکھا تھا اور اگلے پندرہ دن مسلسل اسی سے واسطہ پڑتا رہا ،ہر کھمبے اور پول پر ،ہر بس پر یہاں تک کہ مسجد عائشہ کے اندر لگی ایک ڈیجیٹل مشین پر کہ جو حیران کرنے کے لئے کافی زیادہ تھی۔اس مشین میں ہزاروں کتابیں محفوظ ہیں جنہیں آپ اپنے سمارٹ فون میں محفوظ کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں آنے والے بارہ برسوں میں جو تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں ان کا یہاں پاکستان بیٹھ کر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔شہزادہ محمد بن سلمان تبدیلیوں کے اس ہاتھی پر سوار ہیں جو تبدیلیوں کی ایک بڑی فوج کے آگے آگے چل رہا ہے، اس میں سے کوئی ایک چیز بھی اتفاقی نہیں ہے ،یہ بالکل سوچی سمجھی پوری طرح سے جانچی اور آنکی ہوئی ایک سوچ ہے جو اب ایک مشن اور وژن کی صورت میں ڈھل چکی ہے اور اسے اگر شیئرڈ وژن کہوں تو زیادہ موزوں ہوگا کہ یہی وژن مسجد بنوی میں بھی لکھا ملا اور اسی کا تذکرہ ام القریٰ یونیورسٹی کے درودیوار پر بھی دیکھا ،دل اب زیادہ تیزی سے دھڑک رہا ہے کہ ہمارے خوابوں کی سرزمیں ایک ایسے سفر پر ہے جس کی تفصیل اور منزل کی تفہیم آسان نہیں ہے ،سعودی عرب آئندہ چند برسوں میں ایک آزاد خیال اور بالکل بدلا ہوا ملک ہوگا، ہاں حرمین شریفین کی حدود میں ثقافت روایات اور چلن میں شاید زیادہ بدلاو نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ چوراسی نئے فائیوسٹار ہوٹل بن چکے ہونگے اور عمرہ کے لئے آنے والے مہمانوں کی تعداد نو ملین سے بڑھ کر تیس ملین ہو چکی ہو گی۔دیکھا جائے تو اس وژن کی بنیاد تو تیل کی تیزی سے کم ہوتی قیمت اور اہمیت ہی بنی ہے ،ایک زندہ ملک اور وژنری قیادت کا اصل کام ہی یہی ہوتا ہے کہ مستقبل بینی اور مستقبل سازی کر سکے ،شہزادہ محمد بن سلمان جو نہ صرف ولی عہد ہیں بلکہ وزرا کونسل کے سربراہ بھی ہیں،یہ سارا وژن انہی کا بنایا اور سوچا ہوا ہے ۔
بڑی جستجو سے میری رسائی ان اصل ڈاکومنٹس تک ہوئی ہے جو 7 جون 16 20ء کو سعودی کونسل آف منسٹرز نے منظور کئے ،اس کا نام نیشنل ٹرانسفرمیشن پروگرام رکھا گیا ،اس میں وہ سارے ہی چھوٹے اور بڑے مقاصد اور اہداف بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں جو اصل میں آنے والے برسوں میں 2020 تک ہر صورت میں مطلوب ہیں ،تبدیلیوں کے اس حیران کن سفر کی منصوبہ بندی تین فیز میں کی گئی ہے ہر ایک کی مدت پانچ برس طے ہو ئی ہے جو 2030 کے وژن کو مکمل کریں گے ،24 حکومتی ادارے ان کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں،تین بڑے مقاصد ان کے سامنے ہیں پہلا ایک بدلا ہوا معاشرہ جس میں شہری زندگی پر فوکس ہوگا کلچر میں تفریح شامل کی جائے گی اور انٹرٹینمنٹ کی پوری مشینری اور ،کھیل ، لائیو میوزیکل کنسرٹس جن پر قریباَپانچ سو ارب خرچ کئے جائیں گے اور ریاض سے شروع ہوتے ہوے ہر جگہ ہوں گے،یونسکو کے بتائے اور کہے ہوئے ہیریٹیج پر توجہ ہوگی اور عمرہ کرنے والے جو اب نو ملین آتے ہیں ان کی تعداد کو بڑھا کر تیس ملین تک کیا جائے گا [صحن حرم کے علاوہ طواف کعبہ کے لئے دو مزید طواف سرکلز کی تیاری اسی لئے ہے ]
دوسرا مقصد اکانومی کی مضبوطی ،خواتین کی بھرپور شرکت کے ساتھ ،پبلک انوسٹمنٹ فنڈ ،فارن ڈائریکٹ فنڈنگ ،نان آئل ایکسپورٹس میں اضافہ ہے اور تیسرا واضح جذبے اور آگے بڑھنے کی لگن والی قوم کی تیاری ،حکومتی اداروں کی فعالیت اور موثر اقدامات،کم سے کم اسی نئے بڑے منصوبوں کا آغاز اور ان کی2030 تک تکمیل، سعودی تیل کمپنی آرامکو کے پانچ فیصد حصص کی فروخت یاد رہے یہ کمپنی دو ہزار ارب ڈالر کی حامل ہے اس کے پانچ فیصد حصص دنیا کے صرف چندملکوں کے مالی ادارے ہی خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی معاشرے کی کایا کلپ کے لئے شہزادہ محمد کو پانچ سو دس بلین [کھرب] خرچ کرنے ہونگے ،اس میں اردن اور مصر کی سرحد پر واقع الوجہ اور عملج نامی قصبات کے قریب نئے بسائے جانے والے شہر نیوم کے اخراجات شامل ہیں ،یہ شہر جو ریڈ سی پربسایا جائیگا اس میں پچاس جزیرے بھی شامل ہیں اور اس پر سعودی قانون لاگو نہیں ہوگا ساحل سمندر پر خواتین بکنی میں آجا سکیں گی [یہ سطر باقاعدہ اس منظور شدہ دستاویز کا حصہ ہے ]یہ شہر اصل میں نئے سعودی تصورات اورخوابوں کا ایک ایسا جہان ہوگا مستقبل اور فکشن کا ملاپ ہوگا اور یہی اس کے نام کی وجہ اور بنیاد ہے یہ دبئی سے سو سال آگے کی چیز سوچی گئی ہے یہ قریبا3400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہوگا اس کو عالمی قوانین کے تحت چلایا جائے گا۔ اصل میں اسے انٹر نیشل ٹورازم کو سامنے رکھ کر ہی بنایا جا رہا ہے ،جن سعودی دوستوں سے ملاقات ہوئی انہیں کسی تشویش میں مبتلا نہیں دیکھا،وہ اسے ایک عملیت پسندی گردان رہے ہیں،ان کا خیال ہے کہ اس تبدیلی پر سعودی ردعمل متوقع نہیں ہے کہ نئی نسل تو پہلے ہی اس سارے عمل کی خواہاں تھی ،ان سے پرانے سعودی باشندے،اہل سطوت اور شہزادے اپنی چھٹیاں بیرون ملک گزارتے ہیں اور لاکھوں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے عادی ہیں، یہ تبدیلیاں انہیں اب باہر جاکر خرچ کرنے کی بجائے اپنے ہی ملک میں خرچ کرنے کا موقع فراہم کریں گی ۔
سعودی معاملات ہمیشہ ایک اسرار کی دبیز تہہ میں طے ہوتے رہے ہیں ان میں عوامی شمولیت نہ ہونے کے برابر رہی ہے اس کی دلیل وہاں کے قبائلی نظام اور طرز حکومت کو قرار دیا جاتا رہا ہے ،میرے لئے یہ سارا عمل ایک آہنی پردہ ہٹنے جیسا ہے ، عوامی قبولیت کا پہلا ٹسٹ اسی ماہ موقع ہے جب سعودی عرب میں نئی قائم ہونے والی انٹرٹینمنٹ کمپنی کے زیر اہتمام ریاض میں امریکی اور سعودی گلوکاروں کا لائیو کنسرٹ ہوگا اور پھر فیشن شوز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا 2022 تک ریاض میں سکس فلیگ تھیم پارک تیار ہوچکا ہوگا جو 334 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہے اور 2030 وژن کے تحت 87ویں سعودی سالگرہ کی تقریبات کا مرکز یہی ہو گا ، یہ شوز سعودی تبدیلیوں کا ایک لحاظ سے پہلا عوامی ٹسٹ بھی ہوگا۔
ایک اہم سوال جو بار بار پوچھا جاتا رہے گا کہ کیا سعودی حکومت یہ سب تیل کی فروخت میں کمی کا خسارہ دور کرنے کے لئے پیسے کے لئے کر رہی ہے،ہاں یہ ایک اہم فیکٹر ہوگا مگر اتنے سوچے سمجھے وژن کی وجہ اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ ہے مستقبل بینی اور اس سے عہدہ برا ہونے کی تیاری ،سعودی خاموشی کے علی الرغم بہت ممکن ہے پاکستان میں اس ساری تبدیلی پر بہت تبصرے ہوں جہاں پہلے سے ہی مخلوط تعلیم فیشن شوز سینیمازلڑکیوں کی ڈرائیونگ اور ان کو سٹیڈیم جا کرکھیل دیکھنے کی اجازت جیسی باتیں ایشو ہی نہیں ہیں ،ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ مذہبی اقدار کے حامل اور اپنے تہذیبی خوابوں سے جڑے سعودی معاشرے میں اوپر سے آتی ان تبدیلیوں کی تیز ہوا اسے واقعی بدل دے گی ۔
بشکریہ: روزنامہ پاکستان آن لائن ایڈیشن