انڈیا کی سپریم کورٹ ایسا کیوں نہیں کرتی ؟

اخترعباس

لاہور جم خانہ کی وجہ شہرت کچھ اور رہی ہے، کبھی یہ دلی والوں کو چبھا کرتا تھا وہ لاہور فتح کر کے یہاں چائے پینے کے آرزو مند تھے ، اور ایسی آرزووں کا بھی ایک مقام اور مرتبہ ہوتا ہے کہ یہ عام طور پر پوری نہیں ہوتیں۔اسی جم خانہ کے مشاہدے سے جڑا افسانہ تھا دربان جو آنکھوں کو نم کئے دیتا تھا،یہ افسانوں کے مجموعے پھٹا ہوا دودھ کی زینت بنا ، اور اب ایک نئے مشاہدے کا میں گواہ بن رہا تھا ،نئی دہلی سے آیا معروف پتر کار مین کوری ڈور میں اکیلا کھڑا تھا، ہماری نگاہیں ٹکرائیں مگر اسی دوران اچانک وائس آف جرمنی کے پاکستان میں متحرک نمائندے تنویر شہزاد ڈائننگ ہال سے باہر آئے ایک ٹائی جس کی ناٹ الٹی باندھی گئی تھی ان کے ہاتھ سے ہوتی ہوئی افتخار گیلانی کے گلے میں چلی گئی ، بے شک یہ الٹی تھی مگر شکل سے مکمل ٹائی تھی ،یہ افتخار گیلانی کوئی عام صحافی نہیں ہندوستان کے معروف صحافی کالم نگا ر اور سب سے اہم یہ کہ کشمیر کی جنگ آزادی کے بنیادی ستون سید علی گیلانی کے داماد ہیں۔ مین گیٹ کے قریب پارکنگ سے ہوتا ہوا میں خراماں خراماں چلتا آتے جاتے موجودہ اور سابق بیورو کریٹس کو دیکھتا ہوا کہ جن کے دم قدم سے یہ کلب آباد بھی اور شاد بھی ،میں اندر پہنچا تھا جہاں یہ منظر میرا منتظر تھا ، وہ کہہ رہے تھے ’’میرے ساتھ یہ دوسری مرتبہ ہوا ہے ایک بار وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ جرمنی کے دورے پر تھے ،پی ایم نے میرے نام پر رات کے کھانے کے شرکا کی فہرست میں ٹک کر دی ،میرے پاس تو کھانے کا مخصوص لباس تھا نہیں پھر سفارتی عملے کی دوڑیں لگیں اور مطلوبہ کام مکمل ہوا ،یہاں تو میں بالکل توقع نہیں کر رہا تھا ‘‘ ،اپنے ہی بھائی بندوں کی عزت کا سوال تھا اس لئے میں نے بات آگے نہیں بڑھائی اور ہم ڈائننگ روم میں داخل ہو گئے جہاں سبھی مہمان اور میزبان موجود تھے اور مہمان خصوصی کو ٹائی لگنے کے منتظر تھے، اسی ہال میں کچھ دیر کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان محمد احمد خان کے ساتھ بھی یہی منظر دہرایا جانے والا تھا۔
اس کلب کے اپنے معمول اور قاعدے ہیں جو افسر لوگوں نے خود ہی طے کر رکھے ہیں ،انگریز افسروں کی پیروی کا بھی ایک الگ ہی لطف ہوتا ہو گا اس کلب کی ممبر شب کے حقوق محفوظ ہیں ویسے توبعض ممتاز بزنس مین بھی اس کے ممبر بن سکتے ہیں اور معدودے چند صحافی بھی کہ جن کی باری آجائے ، ویسے برسوں باری نہیں آتی ،اسلام آباد کلب بھی ایسا ہی اہم اور روائتی کلب ہے جس کی رکنیت کے لئے بڑی بڑی سفارشیں بھی کرائی جاتی ہیں۔ ممبرشپ فیس دس سے بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے ہے ، یہ اصل میں تو انگریزوں کے جانے کے بعد کالے یا احتیاطاََ گندمی رنگ کے سرکاری افسروں کے آرام اور اچھے وقت کے لئے وقف تھا، اس کی مینجمنٹ کمیٹی زیادہ تر انتظامی افسروں پر ہی مبنی ہے ،انہی افسروں نے طے کر رکھا ہے کہ یہاں آنے اور کھانا کھانے کے لیے پینٹ کوٹ کے ساتھ ٹائی لازم ہو گی ورنہ ڈایننگ روم میں انٹری نہیں ہو گی ،ہاں بہت ہی پاکستانیت جاگی ہوئی ہے تو شلوار سوٹ کے ساتھ ویسٹ کوٹ یا کوٹ لازم ہو گا ، یوں سرشام آکر بیٹھنے اور ہر حکومت وقت کے کاموں میں کیڑے ڈالنے یا نکالنے کا کام احسن طریقے سے چلتا رہتا ہے،اسی منفی دانش وری کے ساتھ افسروں کی ریٹائر منٹ کے بعد بھی یہی معمول جاری رہتا ہے ،دنیا اور حکومتیں بدل جاتی ہیں ان کی خود ساختہ رازدارانہ کہانیاں اور میں بھی وہاں تھا جیسے جملے برسوں سے سننے والوں کے دل بہلاتے ہیں ،یہیں سے پتا چلا تھا کہ زرداری صاحب سونے اور روپوں کے نوٹ لے کر اسلام آباد سے گورنر ہاوس لاہور آگئے تھے اور پھر یہیں سے لوٹا مال لٹوا کر پرواز کر گئے تھے،دس سے سو پرسنٹ کی تہمتیں اور صدر محل میں ملاقات پر جانے والوں سے پیسے وصول کرنے کی کہانیاں یہیں سے پھیلتی رہی ہیں، میاں نوازشریف کے پہلے دور میں انہیں کم فہم ثابت کرنے اور اصل میں ابا جی کی حکومت کی کہانیاں بھی یہیں کہیں سے پھوٹا کرتی تھیں۔
ابا جی کے احکامات ،ان کی ڈانٹ،ان کی فیصلہ سازی اور فوجی افسروں کو تحفے پھر ان کی گرفتاری ،یہاں پرانی اور بیت جانے والی حکومتوں کے کاموں، کارناموں کا کم ذکر ہوتا ہے،بہت ہوا تو کھانے کی بچی کھچی باقیات جتنا ذکر ،یہاں گرما گرم موضوع ہر حکومت کے چلے جانے بلکہ ابھی صبح گئی کہ شام گئی کی منظر کشی کی لذت لئے ہوتا ہے ،سننے والا اپنے دوستوں کی محفل میںیہاں سے سنی سنائی کہانیاں مشاہداتی صداقت کے یقین سے سناتا اور زیب داستان کے لئے سنانے والوں کے حوالے دے دے کر داد پاتا ہے ،یہاں بیٹھ کر گفتگو کی پھوار میں بھیگنے والوں کو اپنی اصل ایسٹیبلشمنٹ سے قربت ثابت کرنے کے لئے بڑے بڑے جتن کرتے ہیں اور رات گئے واقعات کی زنبیل خالی کر کے ہانپتے لرزتے واپس چلے جاتے ہیں،آپ اس زنبیل کو سانپ کی پٹاری بھی کہہ سکتے ہیں،اور اگر آپ کو سیاسی طور پر طاقتور لوگوں سے ملنے یا ان کی قربت کا تجربہ ہوا ہو تو یہ بڑے بڑے افسر وہاں مشورہ دینا تو دور کی بات ان کے سوالوں کا ٹھیک سے جواب بھی نہیں دے پاتے ،اسی لئے یہ سرکاری ملازم ہوتے ہیں اور اپنے لئے کلب اور کالونیاں الگ بناتے ہیں،جہاں صرف یہ ہیرو ہوں اور انہی کی کہانیوں اور حکومتوں کی ٹوٹ پھوٹ کے امکانات کی بجائے یقینی تبدیلی کے اڑتے آوارہ بادل ہوں جن کے اندر برسنے والا پانی نہیں ہوتا۔
اس محفل میں کئی معروف ٹی وی اینکر بھی تھے،ممتاز کالم نگا ر اورحزب مخالف کی ایک اخبار کے ایڈیٹر بھی ،پلڈاٹ کے سربراہ بھی تھے جن کی سبھی حلقوں میں پذیرائی اور اہمیت ہے ،جناب مجیب الرحمن شامی اور روزنامہ پاکستان کے انٹرنیٹ ایڈیشن کے کامیاب مدیر عثما ن شامی بھی موجود تھے اور کھانے سے شاد کام ہو رہے تھے ،ایسے میں مہمان جناب افتخار گیلانی نے سوال اٹھایا آپ نے کبھی غور کیا انڈیا میں کتنے ہی وزیر اعظم آئے،یہ سبھی دیانت اور امانت کے اعلی مقام پر فائز نہیں تھے مگر ہماری سپریم کورٹ نے کبھی ان کے اختیار ان کے مقام اورمرتبے کو زمین بوس نہیں کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ ملک کے استحکام اور اتھارٹی کا اظہار ہوتے ہیں انہی کو دیکھ کر پورے ملک میں بیوروکریسی نے کام کرنا ہوتا ہے ،یہ بے عزت ہوں گے تو ان کی مانے گا کون اور ملک کیسے چلے گا،ابھی ہم حیرت کے صدمے سے نکلے نہیں تھے کہ انہوں نے دوسری بات کی کہ وہاں بھی درخواستوں کا شوق رکھنے والے بہت ہیں مگر عدلیہ نے پوری یکسوئی کے باعث کبھی کسی درخواست کو سننے کے لئے منظور بھی نہیں کیا، ان کا خیال ہے احتساب کرنا ہے تو فراغت کے بعد جیسے نرسیہما راوء پر کیس چلا تھا ،سیاسی نظام میں مداخلت کا واحد واقعہ الہ آباد ہائی کورٹ کا مسز اندرا گاندھی کے خلاف فیصلہ تھا جس کے ردّعمل میں ملک کو ایمرجنسی کے اندر جھونک دیا گیا تھا ،انہوں نے زور دیا ہمارے سبھی وزرا اعظم میں بڑی ورایٹی رہی ہے ،کم زور ،طاقتور ،بڑی پارٹیوں کے نمائندے اور چھوٹے چھوٹے اتحادوں کے بل بوتے پر آنے والے،اپنے سیاسی وزن سے آئے اور اسی کی کمی بیشی سے گئے ،کسی عدالت نے اپنا کام چھوڑ کر ان کو نہیں چھیڑا۔یہ کوئی قانون نہیں ہے مگر عدلیہ کی ایک فہم اور دانش پر مبنی انڈر سٹینڈنگ ہے۔
محفل میں مظہر عباس سے لے کر حفیظ اللہ نیازی اور حبیب اکرم سے ارشاد عارف تک سبھی موجود تھے مگر کسی کے پاس مہمان کے اس سوال کا جواب نہیں تھا،حالانکہ جم خانہ کی بے رحم روایت کا تو شائد سبھی کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ ہی لیتے ۔

بشکریہ: روزنامہ پاکستان آن لائن ایڈیشن